آ طالب مولا ہر دل کو ہے دعوتِ تعلیم العرفان
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
جس نے یہ نہ پڑھا اس نے کچھ نہ پڑھا
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
ظاہر کے علم کے لیے ظاہری استاد جسے عالم بولتے ہیں ،
باطن کے علم کے لیے باطنی استاد جیسے مرشد بولتے ہیں ،
موسیٰ علیہ سلام اور خضر علیہ سلام کا واقعہ قرآن سے پڑھ کر بھی نہ سمجھے کوئی تو کیا کیا جائے ،
 میرے مرشد کریم ہفتم سلطان الفقر شاہ رفیق اسم اللہ ذات پاک کا تصور عطا فرماتے ہیں جس سے دل پاک اور روح زندہ ہو کر نفس مر جاتا ہے ،
 ظاہری تقریروں سے کچھ اثر نہیں ہوتا جب تک کسی ولی اللہ کی نگاہ کا اثر نہ ہو اندر کی خباثت ختم نہیں ہوتی
واہ شاہین پیر میرا میرا کمال ہے
 جس نے دکھایا خدا کا جمال ہے
بیعت قرآن کی روشنی میں
قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے ارشاد ہے، “ان الذین یبایعونک انما یبایعون اللہ یداللہ فوق ایدیھم فمن نکث فانما ینکث علی نفسہ ومن اوفی نما عھد علیہ اللہ فسوف یؤتیہ اجرا عظیما (پ26 سورۃ فتح آیت 10)
وہ جو تمہاری بیعت کرتے ہیں ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ (دست قدرت) ہے تو جس نے عہد توڑا اس نے اپنے بُرے عہد کو توڑا اور اس جس نے پورا کیا وہ عہد جو اس نے اللہ سے کیا تھا تو بہت جلد اللہ اسے بڑا ثواب دے گا۔ (کنزالایمان)
(2) قرآن مجید میں اللہ رب العزت کا دوسری جگہ ارشاد ہے، لقد رضی اللہ عن المؤمنین اذ یبایعونک تحت الشجرۃ فعلم مافی قلوبھم فانزل السکینۃ علیھم واثابھم فتحا قریبا (پ26، سورۃ حم آیت18 )
بیشک اللہ راضی ہوا ایمان والوں سے جب وہ اس پیر کے نیچے تمہاری بیعت کرتے تھے تو اللہ نے جانا جو ان کے دلوں میں ہے تو ان پر اطمینان اتارا اور انہیں جلد آنے والی فتح کا انعام دیا۔“ (کنزالایمان)
(3) اور تیسری جگہ قرآن مجید میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے، یایھا النبی اذا جاءک المومنت یبایعنک علی ان لا یشرکن باللہ شیئا ولا یسرفن ولا یزنین ولا یقتلن اودھن ولا یاتین ببھتان یفترینہ بین ایدیھن وارجلھن ولا یعصینک فی معروف فبایعھن واستغفرلھن اللہ ان اللہ غفور رحیم“ (پ28، سورہء ممتحنہ آیت12 )
اے نبی جب تمہارے حضور مسلمان عورتیں حاضر ہوں اس پر بیعت کرنے کو کہ اللہ کا کچھ شریک نہ ٹھہرائیں گے اور نہ چوری کریں گے اور نہ بدکاری، اور نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گے، اور نہ بہتان لائیں گے جسے اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان یعنی موضع ولادت میں اٹھائیں اور کسی نیک بات میں تمہاری نافرمانی نہ کریں گے تو ان سے بیعت لو اور اللہ سے ان کی مغفرت چاہو بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔“ (کنزالایمان)
مذکورہ بالا آیات بیعت و ارشاد کے جواز پر واضح دلیل ہیں اور ایسی وضاحت کے ساتھ وارد ہیں کہ کسی تفسیر قرآن کی طرف رجوع کرنے کی حاجت پیش نہیں آتی ہے کہ ان میں صرحت ہے ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ شروع کی دو آیتوں میں جہاد پر بیعت لینے کا ذکر ہے مگر ان کو صرف جہاد پر بیعت لینے کیلئے مقید کر دینا ہرگز صحیح نہیں کہ یہ سراسر جہالت ہے ویسے تو بہت سی آیات کا شانِ نزول کسی خاص موقع پر ہوا تو اس طرح ان آیات کو اسی موقعہ کیلئے خاص کر دینا جہالت نہیں تو پھر کونسی علمیت ہے، قرآن کا یہ حکم عام ہے اور تین نمبر آیت میں صراحت کے ساتھ ارشاد ہے کہ عورتوں نے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے دست حق پرست پر بیعت کی شرک، چوری، بدکاری وغیرہ گناہوں کے سلسلے میں بیعت حاصل کی اور حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ان سے بیعت لی۔
ہمارے مرشد ہفتم سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد رفیق القادری سروری اویسی سلطانی  طالب مولا مرید کو سلسلہ قادریہ میں بیعت فرما کر جب اسم اللہ ذات پاک کا فیض عطا فرماتے ہیں تو طالب کا ظاہر اور باطن روشن ہو جاتا ہے دل زندہ ہو کر نفس مردہ ہو جاتا ہے اور طالب صادق مرید مرشد کی توجہ سے اپنی روح کی اصل حقیقت کو پہچان کر اپنے اللہ کی قربت کو پا لیتا ہے آطالب مولا آ نہیں تو جا اللہ بے نیاز ہے
اس جہاں ہو گیا جس کو دیدارِ حق نصیب
اس سے جا کے کوئی پوچھے کیا ہے صورت پیر کی
بیعت احادیث کی روشنی میں
بڑا افسوس اس پر ہے کہ جو حضرت امام بخاری علیہ الرحمہ کے نام سے بھی واقف نہیں ہوتے ہیں مگر حوالے بخاری شریف کےطلب کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور اردو کی چھوٹی موٹی کتاب نہیں پڑھ پاتے ہیں مگر بخاری شریف کے حوالے کا شوق ضرور ہوتا ہے ہم “صحیح بخاری“ سے ہی چند حدیثیں نقل کرتے ہیں جن میں صاف وضاحت ہے کہ صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے دست حق پرست پر دینی باتوں پر چلنے اور قائم رہنے کی بیعت کی۔
(1) ان عبادۃ بن الصامت وکان شھد بدرا وھو احمد النقباء لیلۃ العقبۃ ان رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قال وحولہ عصابۃ من اصحابہ بایعونی علی ان لا تشرکوا باللہ شیئا ولا تسرقوا ولا تزنوا والا تقتلوا اولادکم ولا تاتوا ببھتان تفترونہ بین ایدیکم اوجلکم ولا تعصوا فی معروب ممن وفی منکم فاجرہ علی اللہ ومن اصاب من ذالک شیئا فعوقب فی الدنیا فھو کفارۃ لہ ومن اصاب من ذلک شیئا ثم سترہ اللہ فھو الی اللہ ان شاء عفا عنہ وان شاء عاقبہ فبایعناہ علی ذلک
ترجمہ:- حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالٰی عنہ جنگ بدر میں شریک ہوئے تھے اور وہ لیلۃ العقبہ کے نقیب بنائے گئے تھے یہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ایسے وقت ارشاد فرمایا جب کہ آپ کے گرد صحابہ کی ایک جماعت تھی کہ ان باتوں پر مجھ سے بیعت کرو کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرو گے، چوری نہ کرو گے، زنا نہ کرو گے، اپنی اولادوں کو قتل نہیں کرو گے اور خود کرکے کسی دوسرے پر بہتان نہ باندھو گے، اچھی بات میں نافرمانی نہ کرو گے، جس نے اس کو پورا کیا اس کا ثواب اللہ کے ذمہ کرم پر ہے اور جو ان گناہوں میں کسی کا ارتکاب کر بیٹھے اور اس کو دنیا میں سزا دی جائے تو یہ اس کیلئے کفارہ اور پاک کرنے والی ہے اور جو ان گناہوں میں سے کچھ کرے اور اللہ عزوجل کو چھپائے رکھے تو یہ اللہ کے سپرد ہے، چاہے اس کو معاف فرما دے، چاہے تو آخرت میں سزا دے، تو ہم نے اس سب باتوں پر حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کی۔“ (بخاری شریف ص7، ج1)
(2) عن جریر بن عبداللہ قال بایعت النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم علی اقام الصلوۃ وایتاء الذکوۃ والنصح لکل مسلم۔
ترجمہ:- حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کی ، نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے اور ہر مسلمان کیلئے خیر خواہی چاہنے پر۔“ (بخاری شریف جلد اول ص75)
(3) اخبرنی ابی عبادۃ بن الصامت قال بایعنا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم علی السمع والطاعۃ فی المنشط المکرہ وان لا تنازع الاامر اھلہ وان نقوم اول نقول بالحق حیث ماکنا لا تخاف فی اللہ لومۃ لائم۔“
ترجمہ:- ولید بن عبادہ نے کہا کہ مجھے میرے باپ عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالٰی عنہ نے خبردی کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے یہ بیعت کی کہ ہر بات سنیں گے اور ہر حکم کی اطاعت کریں گے خواہ بات پسندیدہ ہو یا ناپسندیدہ، حاکم امر ہوگا تو اس سے لڑیں گے نہیں، اور حق پر قائم رہیں گے یا حق بات کہیں گے، جہاں کہیں بھی رہیں گے اور اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔“ (بخاری شریف جلد دوم ص1069)
(4) عن عبداللہ بن عمر قال بایعنا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم السمع والطاعۃ۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہم سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کی، کہ ہر بات سنیں گے اور ہر حکم کی اطاعت کریں گے۔“ (بخاری شریف جلد دوم ص1070)
 میرے مرشد ہفتم سلطان الفقر شاہ رفیق تصور اسم اللہ ذات پاک کا فیض عطا فرما کر اپنے بیعت کئے جانے والے ہر مرید پر توجہ فرماتے ہیں اب مرید جس قدر میرے بابا جان کی اطاعت کرے گا اس کا دل اسم اللہ عزوجل اور اسم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور سے منور ہوتا جائے گا مرید مرشد کی اطاعت نہ کرے اس پر کسی راہ کا کھلنا ممکن نہیں بیعت تو محبت اور اطاعت کا نام ہے مرید کو مرشد کے سامنے اس مردے کی طرح ہونا چاہیے جس کو غسال جب غسل دیتا ہے تو مردہ سرکتا نہیں، صحابہ اکرام آقا جانم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ایسے ادب سے بیٹھتے جیسے ان کے وجود میں سے جان نکل گئی ہو اور وہ رخِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں ڈوب جاتے اور اطاعت کے لیے ہر پل تیار رہتے،
میری آقا جی جانم نے فرمایا مرنے سے پہلے مرجاؤ،،،،،  جو مرنے سے پہلے مر گیا وہی کامیاب ہو گیا میرے شاہ رفیق کا عشق شاہین کتنا پُر کیف ہے یہ عشق انسان کو محبوب کی یاد میں ڈبو کر سب سے تنہا کرتا ہے تنہائی نصف موت ہے جس میں بندہ اپنے رب کے بہت قریب ہوتا ہے تنہائی میں انسان غور و فکر کر کے خود کی پہچان کرتا ہے اور اپنی ذات کی پہچان ہی رب تعالی کی ذات کے قریب ہونے کا سبب بنتی ہے اور بیشک ایک گھڑی کا غور و فکر ساٹھ سال کی بے ریا عبادت سے افضل ہے تنہائی میں پاکیزگی میرے بابا ہفتم سلطان الفقر شاہ رفیق کی نگاہِ ناز سے عطا کردہ تصور اسم اللہ ذات پاک سے نصیب ہوتی ہے جسکی نورانیت دل و دماغ پر قابض ہو کر نفسانی خواہشات سے چھٹکارا دلاتی ہے اورمرنے سے پہلے عشقِ یار میں مر کر روح اپنے اصل مقام کی طرف پرواز کرتی ہے
تنہا سیاہ راتوں میں تیرے نام کا جھومر سجا کر
ساجن شاہین من میں تیری صورت سجائے رکھتی ہے
منکرِ بیعت کا حکم
جو شخص کسی کامل اکمل پیر ولی اللہ کی بیعت کو باطل و لغو جانے اس کا انکار کرے تو ایسا شخص گمراہ بد دین ہے اور بے فلاح نیز شیطان کا مرید ہے
میرے مرشد ہفتم سلطان الفقر  سخی سلطان شاہ رفیق پیا تصور اسم اللہ ذات پاک کا فیض عطا فرماتے ہیں
شرائط بیعت
شریعت مطہرہ کے نزدیک بیعت لینے اور مسند ارشاد پر بیٹھنے کیلئے چند شرطین ضروری ہیں ایک یہ کہ سنی صحیح العقیدہ ہو دوسری شرط ضروری شرعی معاملات کو جاننے والا اور عمل کرنے والا ہو اس لئے کہ شریعت کے علم کو نہ جاننے والا اور شرعی معاملات میں تمیز نہ رکھنے والا خدا کو کبھی پہچان نہیں سکتا میرے مرشد ہفتم سلطان الفقر فرماتے ہیں شریعت چراغ ہے جس کی روشنی میں معرفت اور حقیقت کو پانا ہے، تیسری شرط یہ کہ کبیرہ گناہوں سے پرہیز کرنا اس لئے کہ فاسق کی توہین واجب ہے اور مرشد واجب التعظیم ہے دونوں چیزیں کیسے اکٹھا ہوں گی چوتھی شرط اجازت صحیح متصل ہو یعنی جو بھی خلیفہ شخص مریدین کی بیعت کرے وہ شجرہ کے حساب سے اپنے مرشد کے توسل اولیائے کاملیں کے ساتھ متصل ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متصل ہو جیسا کہ اس پر اھل باطن کا اجماع ہے جس شخص میں ان شرائط میں سے کوئی ایک شرط نہ پائی جاتی ہو تو وہ پیر نہیں
کیا پیر کا سید ہونا ضروری ہے ؟
مندرجہ بالاسطور میں جو پیرِ کامل کی شرطیں بیان کی ہیں ان شرائط کے پائے جانے کے بعد اگر وہ شخص اگرچہ سید، آل رسول نہ ہو مگر اس کا سلسلہ رسول پاک صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے متصل ہے تو وہ صحیح شیخ اور پیر طریقت ہے پیر کیلئے سید ہونا ضروری نہیں، بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ پیر تو سید ہی ہو سکتا ہے اور سید، آل رسول ہی صرف بیعت کر سکتے ہیں اور کوئی دوسرا بیعت نہیں کر سکتا اور کسی غیر سید دوسرے خاندان کے شیوخ سے بیعت نہیں کر سکتے بلکہ سادات ہی بیعت کر سکتے ہیں تو ان کا یہ خیال فاسد اور سراسر غلط ہے کہ شریعت میں کہیں بھی شرط نہیں کہ پیر کا آل نبی ہونا ضروری ہے اور نہ ہی طریقت و تصوف کی کسی کتاب میں ایسی شرط لکھی گئی ہے بس یہ ہے کہ اس غیر سید کا سلسلہ صحیح اجازت و خلافت کے ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم تک متصل ہو۔​ تصور اسم اللہ ذات پاک کا فیض سینہ بسینہ سلسلہ رفیقیہ قادریہ سروریہ سلطانیہ کا فیض ہے جو دورِ حاضر میں روئے زمین پر صرف اور صرف ہمارے مرشد ہفتم سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد رفیق القادری سروری اویسی سلطانی فضلِ خدا اور حضور غوث الاعظم کی عطا سے طالبِ مولا مرید کو عطا فرما رہے ہیں
 آ طالب مولا ہر دل کو ہے دعوتِ تعلیم العرفان
موحدِ واقف الاسرار باھو ثانی
میری جند جان ہفتم سلطان الفقر
شاہ رفیق پیا زندہ باد
اللہ بس باقی ہوس
 حق رفیق یا رفیق