سلطان الفقر کسے کہتے ہیں؟
ہمارے مرشد سلطان الفقر ہیں انہیں اللہ کی طرف سے اجازت ہے کہ وہ اللہ کی مخلوق کو اللہ کی طرف بلائیں۔
حق باہو فرماتے ہیں: باطن میں مجلسِ محمدی ﷺ کی دائمی حضوری بڑا اعلیٰ مقام ہے نبی کریم ﷺ کا چہرہ مبارک اسم اللہ ذات ہے صحابہ کرام ؓ کے لئے اسم اللہ ذات نبی پاک ﷺ کا چہرہ مبارک تھا۔ اس لئے ان کو اسم اللہ ذات پاک کے تصور کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ حق باہو الفقر الفخری کی شرح اس طرح فرماتے ہیں کہ اسم اللہ کی ابتدا ذات سے ہے یعنی فقرا نام اللہ سے فقیر بنتے ہیں اور نام اللہ نبی کریم ﷺ کا فخر ہے کہ نام اللہ نام محمد ﷺ میں تبدیل ہوجاتا ہے چنانچہ حدیثِ قدسی ہے’’کہ محمد ﷺ تو میں ہے اور میں تو ہے ‘‘ یہ دونوں نام ایک ہی صنف سے ہے اس لئے آپ ﷺ نے فرمایا : ’’فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے‘‘ مقامِ فقر انسانی عروج کا بلند ترین مقام ہے اور نبی کریم ﷺ کی حدیث ہے’’ جہاں فقر کی تکمیل ہوتی ہے وہی اللہ ہے ‘‘ یہ بلند ترین مقام اسم اللہ کے تصور میں غرق ہونے سے حاصل ہوتا ہے مجلسِ محمدی ﷺ کی حضوری کے لئے اسم اللہ ذات کا تصور اور اسم محمد ﷺ کا تصور ضروری ہے اور یہ تصور کامل مرشد سلطان الفقر ہی عطا کر سکتا ہے جب اسم اللہ ذات پاک اور اسم محمد ﷺ کے نور سے طالب کو حضور ﷺ کی پہچان ہوتی ہے تو اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی آپ ﷺ کا فرمان ہے’’ جس نے مجھے دیکھا اس نے بے شک حق دیکھا ‘‘ کیونکہ شیطان میری شکل اختیار نہیں کر سکتا مجلسِ محمد ﷺ میں جب حاضر ہوتا ہے تو حضور اکرم ﷺ کے چہرہ مبارک کی زیارت سے تمام مُرادیں حاصل ہو جاتی ہیں وہ فنا فی اللہ اور بقا باللہ کے مقام پر پہنچ جاتا ہے اور اپنی ہستی اور خودی کو ختم کر کے اللہ تعالیٰ کی ذات میں فنا ہونا مرشد کامل کے بغیر ممکن نہیں اور ہمارے مرشد سلطان الفقر سلطان محمد رفیق القادری اسم اللہ کا فیض عطا فرما کر سچے طالبِ مولا کو یہ تمام مقامات اپنی نگاہ اور توجہ سے عطافرماتے ہیں ہمارے مرشد کا یہ مرتبہ خلافتِ الٰہیہ کا حامل ہے یہ مرتبہ محبوبیت کا مرتبہ ہے جو کبھی سلب نہیں ہوتا اور فقیر کامل ہی حقیقت میں انسان کامل ہوتا ہے جو مخلوقِ خدا میں ایک وقت میں صرف ایک ہی ہوتا ہے جو طالبانِ حق کی راہ فقر میں ظاہری و باطنی رہنمائی کا فریضہ ادا کرتا ہے ہمارے مرشد پاک طالبانِ حق کو چلہ کشی،مشقت ،وردو وظائف میں نہیں ڈالتے بلکہ اسم اللہ ذات سے ان کو منزل پر پہنچاتے ہیں ہمارے مرشد کریم نے خود کو دنیا سے چھپا کر رکھا ہے ان کو ان کے مرشد سے جب فیض دینے کی اجازت ملی تو انہوں نے ہر خاص و عام کو فیض دینے کے لئے اپنے آپ کو وقف کیا آپ کسی قسم کی شہرت کو پسند نہیں کرتے۔ لیکن میں یہ سمجھتا ہوں بلکہ یہ اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ میں اپنے مرشد کی پہچان اسی چھپے ہوئے خزانے کی طرح کراؤں جس خزانے کی پہچان کے لئے کائینات کی ابتدا ہوئی۔ اللہ والے ایسے ہی ہوتے ہیں شروع شروع میں ان کی زیادہ شہرت نہیں ہوتی پھر جو ان کو پہچان لیتا ہے وہ ان کی شہرت کا سبب بنتا ہے ہر سو ان کی شہرت پھیل جاتی ہے طالبانِ حق جوق در جوق اس اللہ والے کی طرف لپکتے چلے جاتے ہیں بس میرے مرشد تنہائی کی زندگی کو پسند کرتے ہیں لیکن طالبِ مولا کو ان کی سخت ضرورت ہے کیونکہ دیدارِ الٰہی کا راستہ اسم اللہ ذات سے کھلتا ہے اور اسم اللہ ذات کا یہ خزانہ میرے مرشد کامل سلطان الفقر قادری سروری کے پاس ہے میرے مرشد کامل اپنی بڑائی بیان نہیں کرتے لیکن جو اپنے ہادی کو پہچان لیتا ہے اسے قوتِ گویائی عطا ہوتی ہے میں جو تحریر کر رہا ہوں اپنے ہادی کے مقام کے مطابق تحریر کر رہا ہوں
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’ہم نے ہر قوم میں رسول بھیجے اور بعض کو بعض پر فضیلت عطا فرمائی‘‘
اور ہم اپنے مرشد کی فضیلت پہچان چکے ہیں میں فقیر زر محمد رفیقی قادری اور رئیستہ الخدامِ اعظم سلطان ثمینہ شاہین اپنے مرشد کے ہر حال کے چشم دید گواہ ہیں ۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے تمام علوم عطا فرمائے ہیں آپ فقر کی دنیا کے سلطان ہیں اللہ تعالیٰ نے ’’سات‘‘ ہستیاں ایسی پیدا کی ہیں جن کو تمام ہستیوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے جو نبی کریم ﷺ کا فخر ہیں جن کو سلطان الفقر کہا جاتا ہے ۔ حضرت سخی سلطان حق باہو فرماتے ہیں کہ جاننا چاہیئے کہ جب نورِ احدی نے تنہائی وحدت سے نکل کر کائنات میں ظہور کا ارادہ فرمایا تو اپنے حسن کا جلوہ دیا‘‘
اپنے حسن کی تجلی کی گرم بازاری سے دونوں جہانوں کو رونق بخشی جس سے دونوں جہاں اس کے شمع جمال پر پروانے کی طرح جل بجھےپھر میمِ احمدی کا نقاب پہن کر احمدی صورت اختیار کی اور جذبات وارادات کی کثرت کے باعث سات بار جنبش کی جن جنبشوں سے فقرائے باصفا فنا فی اللہ بقا باللہ ،خیالاتِ ذات میں محو، ہمہ مغز، بے پوست کی سات ارواح آدمؑ کی تخلیق سے ستر ہزار سال پہلے بحرِ جمال میں غرق درختِ یقین پر پیدا ہوئیں ۔ انہوں نے ازل سے ابد تک سوائے ذاتِ حق کے کچھ نہ دیکھا اور اس کی ذات کے سوا اور کچھ نہ سنا بارگاہِ حق میں وصال لا زوال کے سمندر میں کبھی نوری جسم میں ہوکر تقدیس و تنزیہ میں کوشش کرتے رہے اور کبھی سمندر میں قطرہ اور کبھی قطرہ میں سمندر کی مثال ہو کر رہے اِذَا تَمَّ الفَقرُ فَھُوَ اللہُ جب فقر انتہا کو پہنچتا ہے تو وہی اللہ ہے ۔ کے فیضِ عطا کی چادر انہیں کو زیبا ہے۔ پس وہی حیاتِ ابدی اور عزتِ سرمدی کے تاج الفَقر لَا یَحتَاجُ اِلیٰ ربِہ ولا اِلٰی غَیرِہِ’’فقر تو نہ اپنے رب کا محتاج ہے اور نہ اس کے غیر کا‘‘ سے معزز و مقرم ہے انہیں آدم ؑ کی تخلیق اور قیامت کے قیام کی کچھ خبر نہیں یہ تمام اولیا ، غوث اور قطب پر مقدم ہے اگر تو انہیں خدا سے جانے تو بھی جائز ہے اگر بندۂ خدا کہیں تو بھی جائز ہے۔
عَلّمَ مَن عَلَّمَ سکھایا جس نے سکھایا ۔ ان کا مقام ذاتِ کبریا کی چار دیواری ہے اور یہ اللہ تعالیٰ سے سوائے حق کے اور کچھ طلب نہیں کرتے اور کمینی دنیا ، آخری نعمتوں بہشتی حور و قصور اور دوزخ کو آنکھ آٹھا کر نہیں دیکھتے اور ان پر انوارِ وحدت کے ایسے لمحےایک لحظہ میں ستر ہزار بار پڑتے ہیں ۔پھر بھی وہ دم نہیں مارتے۔اور اُف تک نہیں کرتے بلکہ ھَل مِن مَزِیدٍ کچھ اور بھی ہے۔۔۔۔پکارتے ہیں ۔وہ سلطان الفقر اور دو عالم کے سردار یہ ہیں:
1:حضرت فاطمتہ ازہرہ خاتونِ محشر رضی اللہ عنہہ کی روح مبارک
2:حضرت خواجہ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کی روح مبارک
3:ہمارے شیخ حقیقت الحق نورِ مطلق مشہود علی الحق حضرت غوث الاعظم شیخ عبد القادرؓ جیلانی کی روح مبارک۔
4:سلطان انور سّر السرمد حضرت پیر عبد الرزاق فرزند غوث الاعظم رحمتہ اللہ علیہ کی روح مبارک۔
5:اس کی ہائے ہوّیت کے چشمان کا چشمہ حضرت سخی سلطان باہو ذاتِ باہو فنا فی اللہ قدس سِرہ العزیز کی روح مبارک( اور پھر حق باہو فرماتے ہیں کہ ) اور دو ارواح اور ہیں جن کی حرمت و برکت سے دنیا قائم ہے جب تک یہ دونوں ارواح آشیانہ وحدت سے مظاہر کثرت پر اُڑ کر نہ آئیں گی، قیامت قائم نہ ہوگی۔ ان کی نظر سراسر نورِ وحدت اور کیمیائے عزت ہےجس طالبِ مولا پر ان کی نگاہ پڑ جاتی ہے اسے نورِ مطلق بنا دیتا ہے اور وہ مشاہدہ ذاتِ حق کرنے لگتا ہے ۔ انہیں طالبوں کو ظاہری ورد و وظائف و چلہ کشی میں مشغول کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
(رسائلِ باہو)
6:ان دو روحوں میں سے ایک روح مبارک حضرت سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ کی روح مبارک ہے جو چھٹے (ششم) سلطان الفقر ہیں۔
اور
7:ساتویں سلطان الفقر ہمارے مرشد مظہرِ ذاتِ حق حضرت سخی سلطان پیر محمد رفیق القادری سروری قدس سرہ العزیز ہیں۔
"ِمیرے آقا ﷺ کا فخرہیں مرشد سلطان الفقر ہیں"
"گنج بخش ہیں شاہ رفیق ذاتِ حق کا مظہر ہیں"
"ظلمتوں کے قاتل واہ مرشد پُر نور سحر ہیں"
"حقیقت میں ذات حق ظاہر میں خیر البشر ہیں "
"زر شاہین جانتے ہیں عالم میں جو بھی اہلِ نظر ہیں"
"وجودِ رب کا جواز میرے مرشد سلطان الفقر ہیں"
اگر کوئی سچا طالبِ مولا میرے مرشد سلطان الفقر سلطان محمد رفیق القادری کی بارگاہِ اقدس میں اللہ کی طلب میں آئے تو میرے مرشد کریم اس کے قلب کو نور سے منور فرما دیتے ہیں ۔
حق باہو اپنی تصانیف قربِ دیدار اور محک الفقر کلاں میں فرماتے ہیں ۔
جاننا چاہیئے کہ سلطان الفقر کی ابتدا غیر مخلوق نورِ ایمان ہے اور اس کی انتہا غیر مخلوق نورذاتِ رحمان ہے ۔ جو آدمی باطن میں سلطان الفقر کے چہرے کی زیارت کر لیتا ہے وہ لایحتاج ہو کر صاحبِ لفظ ہو جاتا ہے فقر کے مراتب وہی شحص جانتا ہے جو فقر تک پہنچا ہو اور جس نے فقر کی لذت چکھی ہو۔ اور فقر اختیار کیا ہو سلطان الفقر کو اپنی آنکھ سے دیکھ لیا ہو۔
باہو سرکارؒ فرماتے ہیں۔
ہزاروں میں سے کوئی ایک طالب ہوتا ہے جو سلطان الفقر کی لازوال معرفت حاصل کرتا ہے ۔اور جسے عین جمال کا وصال حاصل ہوتا ہے۔
پس معلوم ہوا کہ بہت سے ایسے ہیں ۔جنہوں نے صرف فقر کا لباس پہنا ہوا ہے ہزار میں سے کوئی ایک ہوگا ۔جو فقر کا انتہائی مقام حاصل کرتا ہوگا۔
فقر ایک نور ہے جس کا نام سلطان الفقر ہے جسے یہ نور حاصل ہو اسے اللہ تعالیٰ کی حضوری حاصل رہتی ہے ۔اور وہ اللہ تعالیٰ کا منظورِ نظر ہوتا ہے۔۔(امیرِ الکونین)
اسم ذات پاک کا خزانہ:
میرے مرشد سلطان الفقر رب کی ذات سے جدا نہیں میرے مرشد کو اسم ذات پاک کا خزانہ اللہ کے فضل و کرم اور اللہ کی عطا سے حاصل ہے اور میرے مرشد کے مرید جن کو میرے مرشد نے یہ فیض عطا فرمایا وہ آپ کے مقام سے با خبر ہیں حق باہو فرماتے ہیں جب طالب اللہ اسم اللہ کو اپنا لباس بنا لیتا ہے اور اسم اللہ اس کی جان بن جاتا یہے تو اس کی زندگی ھو یعنی ذاتِ حق کا نشان بن جاتی ہے اور وہ ذات و صفات میں ھو کی نمائندگی کرتا ہے جب اسم اللہ اور جسم باطن میں ایک جان ہو جاتے ہیں تو رازِ پنہانی ظاہر ہو جاتا ہے یہی وہ مقام ہے جہاں اسم اللہ جسم میں اور جسم اسم اللہ میں پیوست ہو جاتا ہے۔
یہی وہ مقام ہے جس کے بارے میں حق باہو فرماتے ہیں کہ:
فقیر کا جسم ایک ضعیف پردے کی طرح درمیان میں حائل ہے مگر وہ ذاتِ حق اس کے درمیان عجیب راز و نکتے ظاہر فرما رہا ہے خود اپنے ساتھ عشق کا کھیل فرمارہا ہے۔
خود نظر، خود ناظر ، خود ہی منظور ہے
خود عشق، خود عاشق خود ہی معشوق ہے
خود کلام کرنے والا اور خود ہی کلام ہے
خود ہی لکھنے والا اور خود ہی کتاب ہے خود رہنما اور خود ہی معنی ہے
پس میں فقیر یہی کہتا ہوں میرے مرشد سلطان الفقر کو میرے رب نے طالبِ مولا کے لئے بے انتہا خزانوں کا مالک بنایا ہے میرے مرشد کے عشق نے مجھے میری اور میرے مرشد کی پہچان کرائی ۔میرے مرشد فقر کے بادشاہ ہیں اور میں ان کا غلام ۔۔
یہاں پر مجھے علامہ اقبال کا ایک شعر یاد آرہا ہے
جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرارِ شہنشاہی
میرے مرشد کے عشق نے میرے قلب کو روشن کیا ان کے چہرہ مبارک سے ہر وقت انوار برستے ہیں وہ سیاہ اور تاریک دلوں میں نورِ الٰہی منتقل کرتے ہیں۔میرے مرشد جب محفل میں اپنے مریدین اور عقیدت مندوں کے سامنے تشریف فرما ہوتے ہیں تو اکثر ان کے رُخِ انور پر اسم اللہ اور اسم محمد ﷺ کی نورانی تحریریں ظاہر ہوتی ہیں ۔
میرے مرشد اپنے مریدوں کو پہلے ہی روز اسم اللہ اور اسم محمد ﷺ کے انوار سے منور کرتے ہیں۔ جو خود نور سے منور ہو وہی نور منتقل کرتا ہے ،حق باہو اس مرشد کو کامل مرشد تسلیم نہیں کرتے جو پہلے ہی روز اپنے طالبِ مولا مرید کو اسم اللہ ذات کا تصور عطا نہ کرے
میرے مرشد کریم سلطان الفقر محمد رفیق القادری فرماتے ہیں کہ ہر چیز کے ظاہر و باطن میں بس ایک وہی ذات جلوہ گر ہے اگر انسان اپنے آپ سے پردہ ہٹائے تو بس وہی ذات ہے اور یہ پردہ مرشد کی نگاہِ کرم اور توجہ سے ہٹتا ہے میرے سلطان الفقر میرے مرشد کی ذاتِ کمال ہے آپ کے اندر باہر اسم اللہ ذات پاک سمایا ہوا ہے آپ کا جسم مبارک اسم اعظم کی وجہ سے جسم ِ معظم ہے میرے مرشد نے اسم اللہ ذات کے راز کو میرے دل میں عیاں فرمایا
منجانب
خادم سلطان الفقر خلیفۂ اعظم فقیر زر محمد خان رفیقی قادری،خادمہ سلطان الفقر رئیستہ الخدامِ اعظم سلطان ثمینہ شاہین رفیقی قادری
No comments:
Post a Comment